Tilawat-e-Quran

Heart Touching Qirat by World Famous Qari's.

Best Islamic Books Collection

Islamic Books in Diffrent Languages of Famouse Islamic Scholars And Ulama Karam.

Audio And Video Bayanats

Listen Islamic Audio And Video Bayanats of famous Islamic Scholar And Famous Ulama Karam.

Listen a Great Collection Hamd O Naat

Listen a Great Collection of Urdu, Arabic and English Naats of famous Naat-Khuwan or Sana-Khuwan.

Aap Ke Masail Aur Un Ka Hal

By Mufti Muhammad Rizwan Motlani.

Al-Rizwan Foundation

Give your Charity to Al-Rizwan Foundation for life trust in this Ramadan and help others to celebrate EID with us.

Showing posts with label Urdu Articles. Show all posts
Showing posts with label Urdu Articles. Show all posts

14 November 2013

حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم



 گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا اور اس کا انجام
قرآنی نصوص ، احادیث مبارکہ ، عمل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، فتاویٰ ائمہ اور اجماع امت سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا قتل ہے اس کی معافی کو قبول نہ کیا جائے ۔ لہٰذا مسلم ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ ان کے اس منافقانہ طرز عمل سے متاثر ہونے کے بجائے ایک غیور مسلمان کا موقف اختیار کریں ۔ جس کا نقشہ اس رسالے کے اگلے صفحات قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔

یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی شان اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آ رہے ہیں ۔ کبھی یہودیہ عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں ، کبھی مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے ۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار پڑھے اور کبھی نازیبا کلمات کہے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شان نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروا دیا ۔ کبھی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دے کر اور کبھی انہیں پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے ۔ کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خود گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کو چیر دیا اور کسی نے نذر مان لی کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور قتل کروں گا ۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ ۔ اور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھنے کے لئے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودیوں کے سردار کا سر آپکے سامنے لا کر رکھ دیا ۔ جو گستاخان مسلمانوں کی تلواروں سے بچے رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں کن عذابوں میں مبتلا کیا اور کس رسوائی کا وہ شکار ہوئے اور کس طرح گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھینک دیا تا کہ دنیا کیلئے عبرت بن جائے کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام کیا ہے انہیں تمام روایات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یہ اوراق اپنوں اور بیگانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور بات کا حلیہ نہ بگاڑنا ۔ ذات اور بات کا حلیہ بگاڑنے سے امام الانبیاءعلیہما لسلام کی شان اقدس میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ آپ اپنی دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھو گے ۔ رسوائی مقدر بن جائے گی ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں ۔
(( ان الذین یوذون اللّٰہ ورسولہ لعنھم اللّٰہ فی الدنیا والآخرۃ واعد لھم عذابا مھینا )) ( 33/احزاب 57 ) ” بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
آئیے گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام دیکھئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسی حوالے سے کارہائے نمایاں ملاحظہ فرمائیے اور اسی بارے میں ائمہ سلف کے فرامین و فتاویٰ بھی پڑھئے پھر فیصلہ فرمائیے کہ ان حالات میں عالم اسلام کی کیا ذمہ داری ہے ۔
یہودیہ عورت کا قتل :
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( ان یھودیة کانت تشتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وتقع فیہ ، فخنقھا رجل حتی ماتت ، فاطل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دمھا (رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک یہودیہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا ۔
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ام ولد کا قتل :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا تھا وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ایک رات اس عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا شروع کیں اس نے ایک بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ مر گئی ۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا ۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا ۔ جو کچھ کیا ۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہو گیا ۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ۔ اس نے آکر کہا ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی ۔ میں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی گزشتہ رات جب وہ آپکو گالیاں دینے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا میں نے زور سے اسے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری گفتگو سننے کے بعد فرمایا تم گواہ رہو اس کا خون ہد رہے ۔ (ابوداود ، الحدود ، باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، نسائی ، تحریم الدم ، باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم
گستاخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور گستاخ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حکم :
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سب نبیا قتل ، ومن سب اصحابہ جلد )) ( رواہ الطبرانی الصغیر صفحہ 236 جلد 1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فتویٰ :
حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
(( کنت عند ابی بکر رضی اللہ عنہ ، فتغیظ علیٰ رجل ، فاشتد علیہ ، فقلت : ائذن لی یا خلیفۃ رسول اللّٰہ اضرب عنقہ قال : فاذھبت کلمتی غضبہ ، فقام فدخل ، فارسل الی فقال : ما الذی قلت آنفا ؟ قلت : ائذن لی اضرب عنقہ ، قال : اکنت فاعلا لو امرتک ؟ قلت : نعم قال : لا واللّٰہ ما کانت لبشر بعد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم )) ( رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ بھی جواباً بدکلامی کرنے لگا ۔ میں نے عرض کیا ۔ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ۔ مجھے اجازت دیں ۔ میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ میرے ان الفاظ کو سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سارا غصہ ختم ہو گیا ۔ آپ وہاں سے کھڑے ہوئے اور گھر چلے گئے ۔ گھر جا کر مجھے بلوایا اور فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے مجھے کیا کہا تھا ۔ میں نے کہا ۔ کہا تھا ۔ کہ آپ رضی اللہ عنہ مجھے اجازت دیں میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میں تم کو حکم دے دیتا ۔ تو تم یہ کام کرتے ؟ میں نے عرض کیا اگر آپ رضی اللہ عنہ حکم فرماتے تو میں ضرور اس کی گردن اڑا دیتا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ نہیں ۔ اللہ کی قسم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں کہ اس سے بدکلامی کرنے والے کی گردن اڑا دی جائے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کی ہی گردن اڑائی جائے گی ۔
عصماءبنت مروان کا قتل :
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( ھجت امراۃ من خطمۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال : ( من لی بھا ؟ ) فقال رجل من قومھا : انا یا رسول اللّٰہ ، فنھض فقتلھا فاخبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال : ( لا ینتطح فیھا عنزان )) ( الصارم المسلول 129 )خَطمَہ “ قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس عورت سے کون نمٹے گا ۔ “ اس کی قوم کے ایک آدمی نے کہا ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کام میں سرانجام دوں گا ، چنانچہ اس نے جا کر اسے قتل کر دیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں یعنی اس عورت کا خون رائیگاں ہے اور اس کے معاملے میں کوئی دو آپس میں نہ ٹکرائیں ۔ بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے ۔
عصماءبنت مروان بنی امیہ بن زید کے خاندان سے تھی وہ یزید بن زید بن حصن الخطمی کی بیوی تھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاءو تکلیف دیا کرتی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی ۔ عمیر بن عدی الخطمی کو جب اس عورت کی ان باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا ۔ تو کہنے لگا ۔ اے اللہ میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بدر میں تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے ۔ تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے ۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی ۔ عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا ۔ تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا ۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اسے زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہو گئی ۔ پھر نماز فجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے ؟ کہنے لگے ۔ جی ہاں ۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
عمیر کو اس بات سے ذرا ڈر سا لگا کہ کہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف تو قتل نہیں کیا ۔ کہنے لگے ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس معاملے کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز واجب ہے ؟ فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں ۔ پس یہ کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی مرتبہ سنا گیا عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد دیکھا پھر فرمایا تم ایسے شخص کو دیکھنا پسند کرتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو ۔ ( الصارم المسلول 130 )
ابوعفک یہودی کا قتل :
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مورخین کے حوالے سے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوعفک یہودی کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ :
(( ان شیخا من بنی عمرو بن عوف یقال لہ ابوعفک وکان شیخا کبیرا قد بلغ عشرین ومایة سنة حین قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینة ، کان یحرض علیٰ عداوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ولم یدخل فی الاسلام ، فلما خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی بدر ظفرہ اللہ بما ظفرہ ، فحسدہ وبغی فقال ، وذکر قصیدۃ تتضمن ھجو النبی صلی اللہ علیہ وسلم وذم من اتبعہ )) الصارم المسلول 138
بنی عمرو بن عوف کا ایک شیخ جسے ابوعفک کہتے تھے وہ نہایت بوڑھا آدمی تھا اس کی عمر 120 سال تھی جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے ۔ تو یہ بوڑھا لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پر بھڑکاتا تھا اور مسلمان نہیں ہوا تھا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف نکلے غزوہ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطاءفرمائی تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کر دیا اور بغاوت و سرکشی پر اتر آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مذمت میں ہجو کرتے ہوئے ایک قصیدہ کہا ۔ اس قصیدے کو سن کر سالم بن عمیر نے نذر مان لی کہ میں ابوعفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے خود مرجاؤں گا ۔ سالم موقع کی تلاش میں تھا ۔ موسم گرما کی ایک رات ابوعفک قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے صحن میں سویا ہوا تھا سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ اس کی طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دی جس سے وہ بستر پر چیخنے لگا ۔ لوگ اس کی طرف آئے جو اس کے اس قول میں ہم خیال تھے وہ اسے اس کے گھر لے گئے ۔ جس کے بعد اسے قبر میں دفن کر دیا اور کہنے لگے اس کو کس نے قتل کیا ہے ؟ اللہ کی قسم اگر ہم کو معلوم ہو جائے کہ اسے کس نے قتل کیا ہے تو ہم اس کو ضرور قتل کر دیں گے ۔
انس بن زنیم الدیلمی کی گستاخی :
انس بن زنیم الدیلمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی اس کو قبیلہ خزاعہ کے ایک بچے نے سن لیا اس نے انس پر حملہ کر دیا انس نے اپنا زخم اپنی قوم کو آ کر دکھایا ۔
واقدی نے لکھا ہے کہ عمرو بن سالم خزاعی قبیلہ خزاعہ کے چالیس سواروں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدد طلب کرنے کیلئے گیا انہوں نے آ کر اس واقع کا تذکرہ کیا جو انہیں پیش آیا تھا جب قافلہ والے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انس بن زنیم الدیلمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا ۔ ( الصارم المسلول139)
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت :
ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من یکفینی عدوی میری دشمن کی خبر کون لےگا ؟ تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو قتل کر دیا ۔ ( الصارم المسلول163)
مشرک گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((ان رجلا من المشرکین شتم ر سول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ( من یکفینی عدوی ؟ ) فقام الزبیر بن العوام فقال : انا فبارزہ ، فاعطاہ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سلبہ )) ( الصارم المسلول : 177 )
مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اس دشمن کی کون خبر لے گا ؟ تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔
کعب بن اشرف یہودی کا قتل :
کعب بن اشرف ایک سرمایا دار متعصب یہودی تھا اسے اسلام سے سخت عداوت اور نفرت تھی جب مدینہ منورہ میں بدر کی فتح کی خوش خبری پہنچی ۔ تو کعب کو یہ سن کر بہت صدمہ اور دکھ ہوا ۔ اور کہنے لگا ۔ اگر یہ خبر درست ہے کہ مکہ کے سارے سردار اور اشراف مارے جا چکے ہیں تو پھر زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے ۔ جب اس خبر کی تصدیق ہو گی تو کعب بن اشرف مقتولین کی تعزیت کے لئے مکہ روانہ ہوا مقتولین پر مرثیے لکھے ۔ جن کو پڑھ کر وہ خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتال کے لئے لوگوں کو جوش دلاتا رہا ۔ مدینہ واپس آکر اس نے مسلمان عورتوں کے خلاف عشقیہ اشعار کہنے شروع کر دئیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں بھی اشعار کہے ۔ کعب مسلمانوں کو مختلف طرح کی ایذائیں دیتا ۔ اہل مکہ نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ۔ تو اس نے جواب دیا کہ تمہارا دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بہتر ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرکات کی وجہ سے اسکے قتل کا پروگرام بنایا اور قتل کے لئے روانہ ہونے والے افراد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی قبرستان تک چھوڑنے آئے ۔ چاندنی رات تھی پھر فرمایا جاؤ ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
(( قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ( من لکعب بن الاشرف ، فانہ قد اذی اللّٰہ ورسولہ ؟ ) فقام محمد بن مسلمۃ فقال : انا یا رسول اللّٰہ اتحب ان اقتلہ ؟ قال نعم قال : فاذن لی ان اقول شیا ، قال : قل )) رواہ البخاری کتاب المغازی باب قتل کعب بن الاشرف ، رواہ مسلم کتاب الجہاد والسیر باب قتل کعب بن الاشرف طاغوف الیھود ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ۔ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کو تکلیف دی ہے اس پر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ۔ اور عرض کی۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں ۔ مجھ کو یہ پسند ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ کہنے کی اجازت دے دیں یعنی ایسے مبہم کلمات اور ذومعنیٰ الفاظ جنہیں میں کہوں اور وہ سن کر خوش و خرم ہو جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اجازت ہے ۔
محمد بن مسلمہ کعب بن اشرف کے پاس آئے آ کر اس سے کہا کہ یہ شخص ( اشارہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا ہے اس نے ہمیں تھکا مارا ہے اس لئے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں ۔ جواباً کعب نے کہا ۔ ابھی آگے دیکھنا اللہ کی قسم بالکل اکتا جاؤ گے ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ چونکہ ہم نے اب ان کی اتباع کر لی ہے جب تک ہم اس کا انجام نہ دیکھ لیں اسے چھوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ میں تم سے ایک دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں کعب نے کہا ۔ میرے پاس کوئی چیز گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ تم کیا چیز چاہتے ہو ۔ کہ میں گروی رکھ دوں ۔ کعب نے کہا ۔
اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا تم عرب کے خوبصورت جوان ہو تمہارے پاس ہم اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ کعب نے کہا ۔ پھر اپنے بیٹوں کو گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ ہم اپنے بیٹوں کو گروی کس طرح رکھ سکتے ہیں ۔ کل انہیں اس پر ہر کوئی گالیاں دے گا کہ آپ کو ایک دو وسق غلے کے عوض گروی رکھا گیا تھا ۔ یہ ہمارے لئے بڑی عار ہو گی البتہ ہم آپ کے پاس اپنے اسلحہ کو گروی رکھ سکتے ہیں جس پر کعب راضی ہو گیا محمد بن مسلمہ نے کعب سے کہا کہ میں دوبارہ آؤں گا ۔
دوسری دفعہ محمد بن مسلمہ کعب کے پاس رات کے وقت آئے ۔ ان کے ہمراہ ابو نائلہ بھی تھے یہ کعب کے رضاعی بھائی تھے ۔ پھر انہوں نے اس کے قلعے کے پاس جا کر آواز دی ۔ وہ باہر آنے لگا ۔ تو اس کی بیوی نے کہا مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہے کعب نے جواب دیا کہ یہ تو محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں اگر شریف آدمی کو رات کے وقت بھی نیزہ بازی کیلئے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے محمد بن مسلمہ اور ابونائلہ کے ہمراہ ابوعبس بن جبر ، حارث بن اوس اور عباد بن بشر بھی تھے ۔
محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے سر کے بال ہاتھ میں لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا ۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر مضبوطی سے پکڑ لیا ہے تو پھر تم اس کو قتل کر ڈالنا ۔ کعب چادر لپٹے ہوئے باہر آیا ۔ اس کا جسم خوشبو سے معطر تھا ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ میں نے آج سے زیادہ عمدہ خوشبو کبھی نہیں سونگھی ۔ کعب نے کہا ۔ میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو عطر میں ہر وقت بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ کیا مجھے تمہارے سر کو سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا اجازت ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے کعب کا سر سونگھا اس کے بعد اس کے ساتھیوں نے سونگھا پھر انہوں نے کہا ۔ دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا ۔ اجازت ہے ۔ پھر جب محمد بن مسلمہ نے پوری طرح سے اسے قابو کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔
پھر رات کے آخری حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا : افلحت الوجوہ ان چہروں نے فلاح پائی اور کامیاب ہوئے ۔ انہوں نے جواباً عرض کیا ووجھک یا رسول اللہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے بعد کعب بن اشرف کا قلم کیا ہوا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الحمد للہ کہا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔ ( فتح الباری 272/7 )

ختم نبوت پر چالیس احادیث

  

ختم نبوت پر چالیس احادیث
اﷲ تعالی کا عظیم احسان ہے کہ اس عالی ذات نے عظیم اور برتر نبی کی امت میں پیدا فرمایا اور ” مسلمان“ کے خطاب سے نوازا“ ۔۔۔۔ اور اسلام پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں اجر اعظیم کا وعدہ فرمایا۔۔۔۔
عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت روز روشن کی طرح واضح ہے اور اس عقیدہ کا انکار قرآن وسنت وعمل صحابہ واکابرین امت کی نظر میں صريح کفر ہے۔ قرآن کریم تقریبا 100 آیات اور ذخیرہ احادیث میں تقریباً210احادیث مبارکہ اس اہم عقیدہ کی بین دلیل ہیں۔۔۔۔ میرے شیخ و مربی حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب دامت برکاتھم فرماتے ہیں کہ ”عقیدہ ختم نبوت کیا مثال ایسے ہے جیسے روح اور جسم کہ اگر جسم میں روح نہ ہوتو جسم بےکار ہے اسی طرح اگر عقیدہ ختم نبوت پر ایمان نہیں تو ایمان کا روبے فائدہ ہے “۔۔۔۔۔۔ زیر نظر رسالہ بھی ایسی سلسلے کی ايک کڑی اور ادنی سی کاوش ہے ۔اس رسالہ میں عقیدہ ختم نبوت سے متعلقہ چالیس احادیث کو جمع کیا گیا ہے تا کہ عوام الناس میں اس عقیدہ کی اہمیت اجاگر ہو سکے۔ویسے توالحمداﷲ اکابرین امت نے اس عظیم الشان مسئلہ پر بے شمار کتب،رسائل اور تقاریر کے ذريعے عوام الناس میں اس مسئلہ کی اہمیت کو بیان فرمایا اکابرین امت کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے احقر نے بھی اس مسئلہ پر کچھ نہ کچھ تحریر کا ارادہ کیا تو شرح صدر چالیس احادیث کے لکھنے پر ہوا اور احادیث کے لکھنے پر ہوا اور ان احادیث کو لکھتے وقت حضور خاتم النبیین صلی ا ﷲعلیہ وسلم کا يہ فرمان مبارک ذہن نشین رہا کہ ”سیدنا عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” جس نے میری امت میں چالیس ایسی حدیثیں بیان کیں کہ جن سے اﷲ تعالی نے ان کو نفع دیا تو روز قیامت اسے کہا کیا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے داخل ہونا چاہيے ہوجا“۔
يہ مضامین احقر نے چھپوا کر اہل علاقہ میں تقسیم کروائے تھے جسکا بہت فائدہ ہوا۔ اﷲ تعالی اس رسالہ کو احقر کے لئے ذریعہ نجات اور عوام کيلے نافع بنائے۔ امین یا رب العالمین۔
طالب دعا: محمد عمیرکاشف خطیب امام جامع مسجد جی۔او۔ار III
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
1۔ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” بے شک نبوت اور رسالت منقطع ہو چکی پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ نبی ۔ (ترمذی)
2۔ امین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہے کہ آقائے کریم علیہ الصلوة والتسلیم نے فرمایا” میں خاتم الانبیاءہوں اور میری مسجدا نبیاءکی مساجد کی آخری ہے“۔( کنز العمال)
3۔سیدنا ابو ہریرة رضی ا ﷲعنہ حضور اقدس صلی ا ﷲ علیہ وسلم کا فرمان عالی نقل کرتے ہیں فرمایا” میں آخر الانبیاءہوں اور میری مسجد آخر المساجد ہے“(مسلم)
4۔ نبی کریم علیہ الصلوة التسلیم نے اپنے صاحبزادے سیدنا ابراہیم رضی اﷲعنہ کی وفات کے موقع پر ارشاد فرمایا” اگر ابراہیم زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا لیکن میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ (بخاری)
5۔اور فرمایا اس کے جنت میں ايک دودھ پلانے والی کا انتظام ہے۔اگر وہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔(ابن ماجہ)
6۔عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے فرمایا رسول کریم علیہ الصلوة التسلیم نے ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب (رضی اﷲ عنہ) ہوتا“(ترمذی)
7۔سیدنا ابوہریرة رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیہم اجمعین نے سرکار عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ کو نبوت کب ملی تو فرمایا” جب آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے “ (یعنی ان میں ابھی روح نہیں روح پھونکی گئی تھی مرتبہ کہ اعتبار سے میں ا س وقت بھی اﷲ کا نبی تھا)۔ (ترمذی)
8۔سیدنا عرباض بن سارےہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” میں اﷲ کے نزديک اس وقت خاتم النبیین مقرر ہو چکا تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی گار ہے ہی کی شکل میں تھے“۔(ترمذی)
9۔فرمایا رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ” میں پیدائش کے اعتبار سے تمام انبیاءسے اول ہوں اور بعثت کے اعتبار سے آخری ہوں۔ (یعنی میرا آخری نبی ہونا اسو قت مقرر ہو چکا تھا) (خضائص کبری)
10۔ حدیث معراج میں سید نا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ”معراج کے موقع پر فرشتوں نے سیدنا جبرئیل امین علیہ الصلوة التسلیم سے دریافت کیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ تو فرمایا”محمد“ صلی اﷲ علیہ وسلم کے رسول اور خاتم النبین ہیں“۔ (ترجمان السنہ از مولانا بدر عالم)
11۔سیدنا ابو ہریرة رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ا ﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” مجھے باقی انبیا ءپر چھ باتوں کی وجہ سے فضلیت دی گئی۔
۱۔ مجھے جامع کلمات عطا کيے گئے۔
۲۔ دشمن پر رعب اور دبدبہ کے ذریعے میری مدد کی گئی۔
۳۔میرے لئے مال غنیمت حلال کیا گیا۔
۴۔ میرے ليے تمام زمین کو پاک کر کے مسجد بنا دیا گیا۔
۵۔ مجھے ساری مخلوق کی طرف بھیجا گیا۔
۶۔ میرے بعد سلسلہ نبوت ختم کر دیا گیا۔ (بخاری ومسلم)
12۔سیدنا رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا ”( شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو نلا کر فرمایا)
میں اورقیامت اس طرح ہیں جس طرح ےہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں“ بتلانا يہ مقصود ہے کہ میرے بعد قیامت تو آئے گی لیکن کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ ( بخاری)
13۔ سیدنا نعیم بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی ا ﷲعلیہ وسلم نے فرمایا” بے شک عنقریب میری امت میں تیں (30) جھوٹے ہونگے ان میں سے ہر ايک کہے گا وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔( منصف ابن ابی شیبہ)
14۔ سیدنا ابو ہر یرة رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ”نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دوگروہ آپس میں نہ لڑیں، دونوں میں بڑی جنگ ہو گی اور دونوں کا دعوی ايک ہو گا اور قیامت ا سوقت قائم نہ ہو گی جب تک کہ تیس کے قریب جھوٹے دجال نہ ظاہر ہو جائیں ہر ايک کہے گا” میں ا ﷲ کا رسول ہوں“ ( بخاری)
15۔سیدنا ابو امامہ الباھلی سے مروی ہے کہ رسول ا کرم صلی ا ﷲعلیہ وسلم نے فرمایا ”میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو“۔( ابن ماجہ)
16۔ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور عالم صلی ا ﷲعلیہ وسلم نے فرمایا” بے شک میں ا ﷲکابندہ ہوں اور انبیاءکرام کا خاتم ہوں؟ ( مستدرک حاکم ۔مسند احمد)
17۔سیدنا ابو ہریرہ رضی ا ﷲعنہ فرماتے ہیں کہ رسول ا کرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہم (امت محمديہ علیہا الصلوة والسلام) اہل دنیا میں سب سے آخر میں آئے اور روز قیامت کے وہ اولین ہیں جن کا تمام مخلوقات میںسب سے پہلے حساب ہو گا۔(مسلم)
18۔سیدنا ضحاک بن نوفل رسول کریم علیہ الصلوة السلام سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا”میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کے بعد کوئی امت نہیں“ (المعجم الکبیر للطبرانی)
19۔فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ” میں تمام رسولوں کا قائد ہو ں لیکن فخر نہیں کرتا اور تمام انبیاءکا ختم کرنے والا ہوں (یعنی نبوت ختم کرنے والا) مگر فخر نہیں کرتا اور میں پہلا شفاعت کرنےو لا ہوں اور مقبول شفاعت ہوں اور کوئی فخر نہیں کرتا“ (مسلم)
20۔سیدنا ابو ہریرة رضی اﷲ عنہ راوی ہے کہ رسول کریم علیہ الصلوة التسلیم نے فرمایا ” میری اور مجھ سے پہلے انبیا کرام کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے کوئی مکان بنایا اس میں ہر طرح سے زیب و زنیت کی مگر ايک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی،لوگ عظیم الشان مکان کی تعمیر ديکھ کر حیرانی کا اظہار کریں اور کہیں کہ اس جگہ بھی اینٹ رکھ دی جاتی تا کہ تعمیر مکمل ہو جاتی۔ ختم الرسل نے فرمایا ”قیامت تک آنے والے انسانو! نبوت کے گھر کی وہ آخری اینٹ میں ہوں لہذا نبوت کا مکان مکمل ہو گیا“۔ (بخاری)
21۔ سیدنا ابو ہریرة رضی ا ﷲعنہ سے روایت ہے فرمایا” ہم سب س آخر والے روز قیامت مقدم ہوں گے اور ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہونگے حالانکہ پہلے والوں کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی او رہمیں ان سب کے بعد“ ( مسلم)
22۔سیدنا جبیر بن مطعم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ”رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا“ بے شک میرے کئی نام ہیں: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، ماحی ہوں یعنی اﷲ میرے ذرےعے کفر کو مٹا دے گا۔ اور حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا اور عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو“(مسلم)
23۔سیدنا محمد بن جبیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم علیہ الصلوة والتسلیم نے فرمایا” میرے پانچ نام ہیں: میں محمد ہوں، احمد ہوں، ماحی ہوں اور میرے ذريعے کفر کو مٹائے گا۔ حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا اور عاقب ہو ں (یعنی میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا) (بخاری)
24۔ فرمایا خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نے ”میرے بعد جو شخص دعوی نبوت کرےگا وہ دجال، کذاب ہوگا۔( ترمذی، ابو داؤد، مشکوة)۔
25۔حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال تک سیدنا ابو ہریرة رضی اﷲ عنہ کے ساتھ رہا میں نے خو سنا کہ وہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ” نبی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاءکیا کرتے تھے جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تو اﷲ تعالی خود کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنا دیتا تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ چار خلفاءہوں گے اور بہت ہونگے، صحابہ نے عرض کیا ان کے متعلق آپ کی حکم ديتے ہیں فرمایا ہر ايک کے بعد دوسرے کی بیعت پوری کرو، اور ان کے حق اطاعت کوپورا کرو، اس لئے کہ اﷲ تعالی ان کی رعیت کے متعلق ان سے سوال کرےگا۔(بخاری)
26۔سیدنا ابو ہریرة نے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوة السلام نے فرمایا ” نبی اسرائیل کا نظام حکومت ان کے انبیاءچلایا کرتے تھے جب کبھی ايک نبی رخصت ہوجاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا اور بے شک میرے بعد تم میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔( مصنف ابن ابی شیبہ)
27۔سیدنا سعد بن ابی وقاص رحمتہ اﷲ سے مروی ہے کہ ”غزوہ تبوک میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو مدینہ میں خواتین اور بچوں کے پاس چھوڑا تو عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا تو فرمایا ! اے علی! کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم میرے ساتھ ایسے ہو جیسے موسی علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم)
28۔سیدنا ابوذر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا اے ابو ذر! انبیا ءمیں سب سے پہلے آدم علیہ السلام اور سب سے آخر میں محمد صلی ا ﷲعلیہ وسلم ہوں۔(فردوس ماثور دیلمی)
29۔ام کرز رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوة السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبوت ختم ہو گئی صرف مبشرات(سچے خواب) باقی رہ گئے۔(ابن ماجہ)
30۔سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرمایا! اے لوگو علامات نبوت میں سے صرف سچے خواب مہر نبوت ديکھی جس کا رنگ جسم کے رنگ کے مشابہ تھا ( مسلم)
31۔سیدنا جابر بن سمرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت ديکھی جس کا رنگ جس کے رنگ کے مشابہ تھا ۔(مسلم)
32۔سیدنا علی رضی ا ﷲ عنہ سے مروی ايک طویل روایت ہے فرمایا”حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں“(ترمذی)
33۔سیدنا ابو ہریرة سے روایت ہے کہ رسول کریم علیہ الصلوة السلام نے فرمایا” میں سویا ہوا تھا میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اورمیرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے جو مجھے بہت بھاری لگے اور میں ان سے متفکر ہوا پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان کو پھونک مار کر اڑادوںمیں نے پھونک ماری تو وہ اڑگئے، میں نے اس خواب کی تعبیر يہ لی کہ میں دوکذابوں کے درمیان ہوں، ايک صاحب صنعا ءاور دوسرا صاحب یمامہ۔ (مسلم)
34۔سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اےک حدیث کے آخر میں ہے” میں نے اسی کی تعمیر يہ لی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخص کا ظہور ہوگا ايک ان میں سے صنعاءکا رہنے والا عنسی اور دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسلمہ ہے۔ (مسلم)
35۔ سیدنا وھب بن منبہ سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے ايک حدیث کے ذیل میں روایت کرتے ہیں کہ ” حضرت نوح علیہ السلام کی امت کہے گی اے احمد صلی اﷲ علیہ وسلم آپ کو ےہ کیسے معلوم ہوا حالانکہ آپ علیہ السلام (آخری نبی) اور آپ کی امت امتوں میں آخری امت ہے “ (مستدرک حاکم)
36۔فرمایا ختم الرسل صلی اﷲ علیہ وسلم نے ” میرے بعد کوئی نبی نہیں اورنہ تمہارے بعدکوئی امت ہے پس اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں قائم کرو، رمضان کے رورے رکھو، اور اپنے اولوالامر (اہل الرائے علمائ) کی اطاعت کرو پس اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ “ ( کنزالعمال)
37۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” اے لوگو‘ بےشک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ہے ، آگاہ روہوپس اپنے رب کی عبادت کرو، اور پانچ نمازں ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو، اور صلی رحمی کرو، اور خوشدلی سے زکوة اداکرو، اور ان لوگوں کی اطاعت کرو جو تمہارے امور کے والی ہیں اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔(ابو اؤد، ترمذی)
38۔سیدنا ثوبان رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا خاتم النبیین علیہ الصلوة التسلیم نے ”میری امت میں تیس جھوٹ پیدا ہونگے، ہر ايک کہے کا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں“ (ابو اؤد، ترمذی)
39۔فرمایا رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ” قیامت کے دن کسی نبی کے ہزاروں امتی ہونگے کسی کے ساتھ سینکڑوں کسی ساتھ چند اور کسی نبی کے ساتھ کوئی امتی نہ ہوگا۔جبکہ میری امت کا نظارہ قابل دید ہوگا میرے چاروں طرف تاحدنگاہ میری امت کا سیلاب ہوگا“ (بخاری ، مسلم،شکواة)
40۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے راویت ہے کہ اﷲ تعالی نے فرمایا ” میں نے آپ کی امت کو سب سے آخر میں بھیجا اور يہ حساب میں سب سے پہلے ہو گی اور آپ نبیوں میں سے سب پہلے پیدا کیا اور سب سے آخر میں بھیجا اور آپ کو فاتح یعنی دورہ نبوت شروع کرنے والا بنایا اور آپ ہی کو اس کا ختم کرنے والا بنایا“۔ ( ترجمان السنہ از موانا بدر عالم رحمہ اﷲ)
فالحمد ﷲ رب العلمین
سبحن ربک رب العزة عما یصفون وسلم علی المرسلین والحمد ﷲ رب العلمین
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم

3 September 2013

" دنیا میں آنے کا مقصد "



دنیا میں آنے کا مقصد
ضبط و ترتیب:مفتی شبیر احمد حنفی
مرکز اہل السنۃ والجماعۃ میں ہر انگریزی ماہ کی پہلی جمعرات بعد نماز مغرب مجلس ذکر ہوتی ہے۔پیر طریقت ،متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب دامت فیوضہم وعظ فرماتے ہیں، جس میں حضرت الشیخ زید مجدہ کے مریدین ومتعلقین کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔یکم مارچ 2013ء کو کیے گئےوعظ کا خلاصہ افادہ عام کی غرض سے پیش کیا جارہا ہے
الحمد للہ وحدہ و الصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ
(البلد:4)
اللہ رب العزت نے دنیا میں ہمیں کھانے لیے نہیں بھیجابلکہ کمانے کے لیے بھیجا ہے۔دنیا کمانےکی جگہ ہے اور جنت کھانے کی جگہ ہے۔دنیا مشقت کی جگہ ہے اور آخرت آرام کی جگہ ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی وہ شخصیت ہیں جن کے صدقے اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو وجود دیا ہے۔غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ خندق کھود رہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان سے یہ جملے ارشاد فرمارہے تھے:اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ۔۔۔ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ
(صحیح البخاری رقم الحدیث 6414)
اے اللہ! میرے انصارومہاجرین کی مغفرت فرما،اور ساتھ یہ تسلی بھی دے رہےتھے کہ عیش کی زندگی تو آخرت کی ہے نہ کہ دنیا کی۔جب یہ بات آدمی کے ذہن میں بیٹھ جائے تو آدمی کے لیے شریعت پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔دیکھیں ایک کالج کا لڑکا ہےجو کہ بالکل نہیں پڑھتا ،مگر بعض اوقات وہ رات دو دوبجے تک جاگ کر پڑھتا ہے۔ کہتا ہے کہ کل میرا امتحان ہے ۔اسے پتہ ہے اب محنت کروں گا تو پاس ہوں گا۔پاس ہوں گا تو نوکری ملے گی۔تواس کو نوکری کا علم ہے اس لیے رات کو جاگتا ہے۔ ہمیں رات کے جاگنے پر کیا ملے گا؟ اس کا علم نہیں ہے۔دنیا کے لوگوں کو علم ہے کہ محنت کریں گے تو کچھ حاصل ہوگا مگر ہم کو علم نہیں کہ ہم محنت کریں گے تو ہماری آخرت بنے گی۔مجھے آج ایک ساتھی مذاق میں کہنے لگا کہ حضرت آج بڑی سپیڈ لگی ہوئی ہے۔ میں نے کہا جب وقت تھوڑا ہو اور کام زیادہ ہو تو سپیڈ تو لگتی ہی ہے ۔ ہماری زندگی بہت تھوڑی ہے اور ایک بارملی ہے باربار نہیں ملتی۔تو اس میں جتنی محنت ہوسکتی ہے کریں، کیونکہ ہمارا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ساتھ ہےاور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک علاقے کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے تشریف لائے ہیں۔
اب ہم پوری دنیا میں شاید نہ جاسکیں لیکن پوری دنیا سامنے تو رکھنی چاہیے،کیونکہ جتنا ہمارا جذبہ ہوگا اور محنت ہوگی اسی کی نسبت اللہ تبارک وتعالی کی مدد اترے گی۔تو میں گزارش کررہا ہوں کہ ہم دنیا میں کام کے لیے آئے ہیں ۔کام ہی ہمارا مزاج بن جائے ۔ آپ کسی طالب علم سے پوچھتے ہیں کلاس میں کیوں نہیں آئے ؟وہ کہتا ہے مجھے نزلہ ہے،کوئی کہتا ہے میرے سر میں درد ہے اور اگر مزدور کو نزلہ یا سر کا درد ہو تو وہ کام پر آتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں جاؤں گا، کام کروں گا تو کچھ ملے گا۔تو وہ کام کرتا ہے اور ہم کام میں سستی کرتے ہیں ۔ یاد رکھیں یہ کام دنیا میں چل جاتاہے مگر آخرت میں یہ معاملہ نہیں چلتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى
( النجم:39)
جو کیا ہوگا وہی ملنا ہے،وہی آگے جاکر وصول ہوگا۔
میں یہ گزارش اس لیے کرتا ہوں کہ آج ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ گناہوں سے بچنا بہت مشکل ہے ۔حالانکہ گناہ سے بچنا بہت آسان ہے۔اللہ تعالیٰ مشکل احکام بندے کو دیتے ہی نہیں، اللہ وہی حکم دیتے ہیں جو بندے کے بس میں ہو۔
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا
(البقرۃ:286)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر آدمی زنا کرنے لیے عورت پر بیٹھ چکا ہو تو اس وقت بھی حکم ہے کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔اگر کسی بندے کے بس میں نہ ہوتا تو اللہ حکم ہی نہ دیتے ۔ معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں بھی بچنا بندہ کے اختیار میں ہے۔ جب اللہ دل میں آجاتاہے تو بندہ گناہ سے بچنے کے راستے تلاش کرتا ہے۔انسان کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے گناہوں سے بچا ہی دیتے ہیں۔ آپ محنت کرکے تو دیکھیں، اللہ یوں نوازتا ہے کہ بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ گناہوں سےبچنے کا ارادہ کریں خدا کی قسم اللہ گناہوں بچنے کے اسباب دے گا۔ اللہ رب العزت بہت کریم ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ بندہ کو محروم نہیں کرتے بس کبھی ہماری محنت صحیح نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ
(البلد:4)
ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا۔ کبھی لوگ کہتے ہیں کہ مدرسہ ہے اسباب نہیں ،میں نوکری کرتا ہوں گزارہ نہیں چلتا۔ تومیں کہتا ہوں کیوں نہیں چلتا؟ آپ تھوڑا اخراجات کنٹرول تو کریں ۔دنیا توکمانے کی جگہ ہے کھانے کی جگہ تھوڑا ہی ہے۔حرام کھانے کو چھوڑیں اور حلال کی چٹنی کھائیں، حرام کے مرغ چھوڑیں حلال کی دال کھائیں۔اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو روزہ رکھیں، مگر طے کریں کہ میں نے گناہ نہیں کرنا۔کچھ عرصہ لگے گا اللہ تعالی پھر وسعت کے ساتھ دروازے کھول دیں گے۔بندہ ہمت کرے تو اللہ اتنے اسباب عطاء فرماتے ہیں کہ بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ
(البلد:4)
ہم نے بندے کو مشقت میں پیدا کیا۔ ہم چاہتے ہیں کام کریں تکلیف نہ ہو،مصیبت نہ آئےاور مال ہی مال ہو۔ ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ محنت نہ کریں لیکن پیسہ ہی پیسہ ہو۔ فرمایا نہیں خدا نے مشقت میں پیداکیا ہے ، تکلیفیں تو آنی ہیں۔ ہاں کبھی اگر راحت مل جائے تو اس پر توبندہ کو غور کرنا چاہیے لیکن مشقت ملے تو یہ مزاج دنیا ہے اس میں کیا تعجب کرنے کی ضرورت ہے،مشقت میں آدمی کو پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگنی چاہیے۔
میں ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک مزدور روزانہ 8 گھنٹے کام کرے، مشقت کرے،اینٹیں اٹھائے تو بتائیں اسے پسینہ آناچاہیے کہ نہیں ؟ [سامعین: آنا چاہیے]تو جو مزدور کہے میں نے8گھنٹے مزدوری کی ہے اور مجھے پسینہ نہیں آیا، تو مولانا کہیں گے : نئیں پتر تو کسی حکیم نوں چیک کرا [نہیں بیٹے آپ کسی حکیم کو چیک کرائیں] پسینہ نہ آئے یہ عیب ہے،خوبی نہیں ہے۔یہ باتیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک مولانا جو بہت جسیم تھے فرمانے لگے: اللہ کا شکر ہے 10سال سے کوئی بیماری نہیں آئی۔ میں نے کہا آپ کسی خانقاہ سے رابطہ کریں۔کہیں آپ گناہ میں ملوث تو نہیں ہیں،کہ اللہ نے ڈھیل دے رکھی ہے۔ جب آدمی بیمار ہی نہ ہو تو جری ہوکر گناہ کرتاہے اور تھوڑی سی بیماری آجائے تو سارے پچھلے گناہ یاد آجاتے ہیں اور ایک ایک کو یاد کرکے معافی مانگتا ہے اور جب آدمی کسی نیکی کا واسطہ دیتا ہے تو اللہ تعالی آسانی فرماتے ہیں۔
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا
)جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے آسانی فرما دیتے ہیں(دنیا میں مشقت ہویہ عیب نہیں، دنیا مشقت نہ ہو یہ عیب ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَشَدُّ الناس بَلاَءً الأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ
(مسند البزار ج 3ص349 رقم الحدیث1150)
فرمایا کہ دنیا میں سب سے زیادہ تکالیف انبیاء پر آتی ہیں پھرجو ان کے قریب ہیں ان پر۔امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری حسرت ہوتی تھی کہ جب مروں تو مرتے وقت تکلیف نہ ہولیکن جب میں نبی علیہ السلام کی تکلیف دیکھی ہے تو یہ تمنا چھوڑ دی ہے۔ حضور علیہ السلام کی تکلیف کیسی تھی؟روایات میں آتا ہے کہ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف بڑھی تو دو آدمیوں کے کندھوں کے سہارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد تشریف لاتے تھے، اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ اٹھا کر دیکھتے کہ جو جماعت میں نے تیار کی ہے وہ نماز پڑھ رہی ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ جماعت نماز پڑھتی ہو گی تو آپ علیہ السلام کا دل کتنا ٹھنڈا ہوتا ہو گا کہ جو فوج میں نے تیار کی ہے اس کا رزلٹ اللہ مجھے دنیا میں اپنی آنکھوں سے دکھا رہا ہے۔
اس پر میں ایک بات سناتا ہوں ۔مجھے ایک ساتھی کہنے لگا کہ یہ جو ہمارا عقیدہ ہے کہ اگرہم یہاں سے صلوۃ وسلام پڑھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فرشتے پہنچا دیتے ہیں اور جب روضہ مبارک کے پاس پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں۔ کہنے لگا کہ میرا ایک سوال ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ میں مذاکرات کرنے کے لیے گئے تھےاور حضور صلی اللہ علیہ وسلم مقام حدیبیہ میں تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مشرکین نے وہاں گرفتار کرلیا،اور مشہور ہوگیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو کہا بیعت کرو ، ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ خون سےلیں گے۔ تو جب نبی کا خون گرتا ہے توانتقام خدا لیتا ہےجب صحابی کا خون گرتا ہے انتقام نبی لیتا ہے،کیونکہ نبی نمائندہ خدا کا ہے اور صحابی نمائندہ مصطفی کا ہے۔تو وہ ساتھی کہنے لگے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید تونہیں ہوئے تھے،نماز بھی پڑھتے ہوں گے؟ میں نے کہا :ہاں۔ کہنے لگے درود بھی پڑھتے ہوں گے؟ میں نے کہا: ہاں ۔کیا نبی علیہ السلام پر بھی وہ درود پیش ہوتا تھا ؟میں نے کہا نہیں۔جب نبی علیہ السلام اس دنیا میں زندہ تھے صلاۃوسلام اور امت کے اعمال کے پیش ہونے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اس لیے کہ اگر میں مدرسہ میں موجود ہوں تو میں دیکھ رہا ہوں کہ طالبعلم پڑھ رہے ہیں ،کام کررہے ہیں، اب یہاں پر مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ہاں اگرمیں بیرون ملک چلاجاؤں تو میں پوچھوں گا کتنے طلبہ ہیں؟ کیسا پڑھتے ہیں ؟وغیرہ وغیرہ۔تو جب نبی علیہ السلام اس دنیا میں تھے تو امت کے اعمال کا مشاہدہ کررہے تھے، عرض اعمال کی ضرورت نہ تھی اور جب نبی علیہ السلام دنیا چھوڑ گئے تو اب عرض اعمال کی ضرورت ہے ۔
تو میں بات کہہ رہا تھا لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ کہ دنیا میں مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ انسان گناہ نہ کرے اس کے لیے بھی مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔بعض ساتھی کہتے ہیں دعا کریں کہ گناہ کو دل ہی نہ کرے ۔میں کہتا ہوں کہ یہ دعا نہ کرو،یہ دعا کرو گے تو پھر کمال کون سا ہے؟؟ جون کا مہینہ ہو روزہ رکھوپیاس نہ لگے یہ کمال کون سا ہے ؟کمال تو یہ ہے کہ مہینہ گرمی کا ہے، پیاس شدت سے لگتی ہے ،ٹھنڈے پانی سے غسل کرتے ہیں، پانی منہ کے اندر نہیں جانے دیتے کیونکہ اللہ دیکھ رہا ہے یہ کمال ہے،اور جب پیاس ہی نہ لگے تو یہ کون سا کمال ہے؟گناہ کو دل کرے پھر بھی انسان گناہ نہ کرے یہ کمال ہے ،دل ہی نہ کرے پھر گناہ نہ ہو یہ کون سا کمال ہے؟اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ
(النور:30)
مؤمنین سے کہو کہ اپنی نظریں جھکائے رکھیں۔جب نظریں جھکائیں اور گناہ نہ کریں تو مشقت تو ہوگی۔جس کے مزاج میں غلاظت ہو وہ گناہ کے مواقع تلاش کرتا ہے اورجس کے مزاج میں غلاظت نہ ہو وہ گناہ نہیں کرتا۔ بس آج سےیہ طے کر لو کہ لاکھ نقصان ہو گناہ نہیں کرنا چاہے اس کے لیے کتنی ہی مشقت اٹھانی پڑے۔اللہ تعالی مجھے بھی اور آپ کو بھی گناہوں سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔

1 September 2013

حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ


حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
مولانا محمد عبد اللہ معتصم
ولادت وسیادت:
ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی سے قبل راجہ بھیم سنگھ نے ضلع مظفر نگر میں ایک قصبہ اپنے نام سے بسایا جو "تھا نہ بھیم"کہلایا۔پھر مسلمانوں کی آمد وسکونت پر اس کا نام "محمدپور"رکھا گیا، مگر یہ نام مقبول ومشہور نہ ہوا اور وہی پرانا نام معروف رہا ۔البتہ "تھانہ بھیم"سے تھانہ بھون ہوگیا۔ آگرہ شہر کے نواح میں واقع یہ چھوٹا سا قصبہ اپنی مردم خیزی میں مشہور چلا آرہا ہے اور یہاں کے مسلمان شرفاء اہل شوکت وقوت اور صاحب فضل وکمال رہے ہیں۔مجدد الملۃ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے اجداد نے آج سے صدیوں قبل تھانیسرضلع کرنال سے نقل سکونت کرکے تھانہ بھون میں اقامت اختیار کی تھی۔آپ کے جد اعلی سلطان شہاب الدین والی کابل رہے ہیں اور سلطان غزنوی کی حکومت کے زوال کے بعد جذبہ جہاد کے تحت کئی بار ہندوستان پر حملہ کیا اور بامراد لوٹے ان کی اولاد میں شیوخ تھانہ بھون کے علاوہ حضرت شیخ مجدد الف ثانی ،شیخ جلال الدین تھانیسری اور شیخ فرید الدین گنج شکر جیسے کاملین پیدا ہوئے ہیں۔
آپ کے والد ماجد شیخ عبدالحق ایک مقتدر رئیس صاحب نقد وجائیداد اور ایک کشادہ دست انسان تھے فارسی میں اعلی استعداد کے مالک اور بہت اچھے انشاء پرداز تھے۔ایسے عالی خاندان میں جہاں دولت وحشمت اور زہد وتقوی بغل گیر ہوتے تھے حضرت مجدد الملت کی جامع شخصیت 5ربیع الثانی 1280ھ بمطابق 9ستمبر 1863ء کو ظہور پذیر ہوئی والد ماجد نے آپ کی تربیت بڑے ہی پیار ومحبت سے کی،تربیت میں اس بات کو خاص اہمیت دی کہ برے دوستوں اور غلط مجالس سے آپ دور رہے ،آپ کی طبیعت خود بھی ایسی واقع ہوئی تھی کہ کبھی بازاری لڑکوں کے ساتھ نہیں کھیلے بچپن سے مزاج دینی تھا،12سال کی عمر میں پابندی سے نماز تہجد پڑھنے لگ گئے تھے۔
تعلیم وتربیت:
حضرت مجدد الملت کی ابتدائی تعلیم میرٹھ میں ہوئی فارسی کی ابتدائی کتابیں یہیں پڑھیں اور حافظ حسین مرحوم دہلوی سے کلام پاک حفظ کیا پھر تھانہ بھون آکر حضرت مولانا فتح محمد صاحب سے عربی کی ابتدائی اور فارسی کی اکثر کتابیں پڑھیں ذیقعدہ 1295ھ میں آپ بغرض تحصیل وتکمیل علوم دینیہ دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور پانچ سال تک یہاں مشغول تعلیم رہ کر 1301ھ میں فراغت حاصل کی اس وقت آپ کی عمر تقریباً19سال تھی زمانہ طالبعلمی میں حضرت میل جول سے الگ تھلگ رہتے اگر کتابوں سے کچھ فرصت ملتی تو اپنے استاد خاص حضرت مولانا محمد یعقوب قدس سرہ کی خدمت میں جابیٹھتے۔
حضرت مجدد الملت کو علوم عقلیہ سے خاص مناسبت تھی فطرت نے حاضر جوابی، سلاست لسانی اور ذہانت وفطانت سے پوری طرح آراستہ کیا تھا۔علوم وفنون میں مہارت کے باوجود تواضع کا حال قابل دید ہے،1300ھ کا واقعہ ہے آپ کو خبر ملی کہ دستار بندی کا جلسہ بڑے پیمانے پر ہونے والا ہے اور حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے مقدس ہاتھوں یہ رسم طے پانے والی ہے،اپنے ہم سبقوں کو جمع کرکے حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی کی خدمت میں پہنچے اور عرض کی" حضرت ہم نے سنا ہے کہ ہم لوگوں کی دستار بندی ہوگی حالانکہ ہم ہرگز اس کے اہل نہیں ہیں یہ تجویز منسوخ فرمائی جائے ورنہ اس میں مدرسہ کی بڑی بدنامی ہوگی،یہ سن کر صاحب بصیرت استاد نے فرمایا تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے یہاں چونکہ تمہارے استاد موجود ہیں اس لیے ان کے سامنے تمہیں اپنی ہستی کچھ نظر نہیں آتی باہر جاوگے تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہوگی جہاں جاو گے بس تم ہی تم ہوگے،دنیا نے دیکھا کہ یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف صحیح نکلی۔
درس وتدریس:
تکمیل تعلیم کے بعد والد ماجد اور اساتذہ کرام کی اجازت سے آپ کانپور تشریف لے گئے اور مدرسہ فیض عام میں پڑھانا شروع کردیا چودہ سال تک وہاں پر دارالعلوم دیوبند کی عام فضاوں سے حاصل کیے گئے فیض کو عام کرتے رہے،1315ھ میں کانپور چھوڑکر آپ آبائی وطن تھانہ بھون تشریف لائے اور یہاں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کی خانقاہ کو نئے سرے سے آباد کیا اور مدرسہ اشرفیہ کے نام سے ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی جہاں آخر دم تک تدریس،تزکیہ نفوس اور اصلاح معاشرہ جیسی خدمات سرانجام دیتے رہے ،
اس مراجعت پر حضرت حاجی صاحب نے آپ کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا" بہتر ہوا کہ آپ تھانہ بھون تشریف لے گئے امید ہے کہ خلائق کثیر کو آپ سے فائدہ ظاہری وباطنی ہوگا،اور آپ ہمارے مدرسہ ومسجد کو ازسرنو آباد کریں گے،میں ہر وقت آپ کے حال میں دعا کرتا ہوں" سلوک ومعرفت:
ظاہری علوم کی تکمیل کے بعد مجدد الملۃ کے دل میں تزکیہ باطن کا داعیہ پیدا ہوا ، چنانچہ شوال1201ھ میں جب کہ آپ طالبعلمی کی زندگی ختم فرماکر کانپور میں اشاعت علوم میں مصروف تھے سفر حج کی تو فیق ہوئی،حضرت والا اپنے والد ماجد کی معیت میں زیارت حرمین شریفین کے لیے روانہ ہوئے مکہ معظمہ پہنچ کر شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خدمت میں حاضر ہوئے ،حضرت حاجی صاحب مجدد الملۃ کے آنے سے بہت خوش ہوئے اور دست بدست بیعت کی نعمت سے سرفراز کیا اور فرمایا تم میرے پاس چھ مہینے رہ جاؤلیکن حضرت والد ماجد نے مفارقت کو گوارا نہ کیا ،اس پر حاجی صاحب نے فرمایا کہ والد کی اطاعت مقدم ہے اس وقت چلے جاؤپھر دیکھا جائے گا،1310ھ میں آپ دوبارہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور چھ ماہ حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں رہے۔
اس دوران حضرت حاجی صاحب نے آپ کو شرف خلافت سے نوازا اور ساتھ یہ فرمایا میاں اشرف،توکل بخدا تھانہ بھون جاکر بیٹھ جانا اگر سخت حالات پیش آئیں تو عجلت مت کرنا،ان وصیتوں اور باطنی دولت کو لے کر آپ 1311ھ میں وطن واپس لوٹ آئے اور حضرت حاجی صاحب کی وصیت کے مطابق تھانہ بھون میں رشد واصلاح باطنی کا م شروع کردیا،ہندوستان کے طول وعرض سے لوگ پروانہ وار آتے رہے اور علم وعرفان کی نعمت سے سرفراز ہوتے رہے۔
حضرت اپنے مریدین ومعتقدین کے تزکیہ نفس اور ذہنی وعملی تربیت کا بطور خاص اہتمام فرماتے تھے،اور یہ انہی کے فیض تربیت کا نتیجہ ہے کہ ان کے خلفاء ومریدین میں ان کے دیگر معاصرین کی نسبت دینی شعور زیادہ اجاگر ہے فکر ونظر کا اعتدال اور توازن ان کے متبعین کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔
علمی آثار:
حضرت مجدد الملۃ کے علمی فیوض وبرکات اس قد مختلف الانواع ہیں کہ ان سب کا احاطہ ایک مختصر مضمون میں نہیں ہوسکتا وہ قرآن پاک کے مترجم ہیں مجدد ہیں مفسر ہیں اس کے علوم وحکم کے شارح ہیں اس کے شکوک وشبہات کے جوابات دینے والے ہیں وہ محدث ہیں احادیث کے اسرار ونکات کے ظاہر کرنے والے ہیں وہ فقیہہ ہیں ہزاروں فقہی مسائل کے جواب لکھے ہیں ان کی تصنیفات ہندوستان کی طول وعرض میں پھیلیں اور ہزاروں مسلمانوں کی اصلاح وفلاح کا باعث بنی،مسلمانوں کی اصلاح میں جو دقیق نظر ان کو بارگاہ الہی سے عنایت ہوئی تھی اس کا اندازہ ان کی اصلاحی کتب سے بخوبی ہوسکتا ہے ان اصلاحات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ مجالس ومدارس اور خانقاہوں سے شروع ہو کر شادی وغمی کے رسوم اور روز مرہ زندگی کے دیگر عام احوال کو محیط ہیں ،آپ کی تقریبا 400موعظ جواسلامی احکام ،رد بدعات اور مسلمانوں کی مفید تدابیر وتجاویز پر مشتمل ہیں ،شائع ہوئے ہیں،مواعظ کے علاوہ اس سلسلے کی اہم کڑی آپ کی کتاب حیوۃ المسلمین ہے جس میں آپ نے قرآن پاک واحادیث نبویہ کی روشنی میں مسلمانوں کی دینی ودنیاوی ترقی کا پرگرام مرتب کیا ہے اس سلسلہ کی دوسری کتابیں اصلاح الرسوم ،صفائی معاملات،اصلاح امت،اصلاح انقلاب امت بہشتی زیور ،بہشتی گوہر وغیرہ ہیں اور ہر ایک کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی اخلاقی اجتماعی معاشرتی زندگی خالص اسلامی طریق اور شرعی نہج پر ہو،آپ کی تصنیفات اور ہر شعبہ زندگی میں تحریرات واصلاحات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آپ اپنے زمانہ کے مجدد،جامع شریعت وطریقت اور حکیم الامت تھے،جیسا کہ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں بے شک وہ {حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ}مجدد تھے انہوں نے ایسے وقت میں دین کی خدمت کی جب کہ دین کو بہت احتیاج تھی۔
تصانیف:
علماء اسلام میں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں جن کی تصانیف کے اوراق اگر ان کی زندگی کے ایام پر بانٹ دیے جائیں تو اوراق کی تعداد زندگی کے ایام سے زیادہ ہوجائے امام ابن جریر طبری ،حافظ خطیب بغدادی امام فخر الدین رازی،حافظ ابن جوزی وغیرہ متعدد نام اس سلسلے میں لیے جاسکتے ہیں ہندوستان میں اس سلسلے کا اخیر نام حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا ہے۔
آپ کی تصانیف اور رسائل کی تعداد 800تک ہے ،ان میں سے چند ایک کے نام پیش خدمت ہیں۔
تفسیر بیان القرآن ،سلیس بامحاورہ ترجمہ، تفسیر میں روایات صحیحہ اور اکابر کے اقوال کا التزام کیا گیا ہے۔
اعمال قرآنی ،قرآن مجید کی بعض آیتوں کے خواص
حقیقۃ الطریقۃ ،سلوک وتصوف کے مسائل وروایات پر مشتمل ایک بے نظیر کتاب
احیاء السنن،فقہی ترتیب پر جمع کیے گیے احادیث کا مجموعہ
امداد الفتاوی،فقہی مسائل اور مباحث کا ایک نادر مجموعہ
الانتباہات المفیدہ ،جدیدتعلیم یافتہ لوگوں کے مذہبی اعتراضات کے جوابات
اعلاء السنن ،مذہب حنفی کی موید احادیث ،محدثین اور اہل فن کی تحقیقات کا مجموعہ
بہشتی زیور،اسلامی معلومات کا مکمل ذخیرہ
المصالح العقلیہ،اسلامی احکام ومسائل کے مصالح وحکم کا بیان
جمال القرآن ،اصطلاحات تجوید پر مشتمل ایک عام فہم رسالہ
نشر الطیب ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مشتمل جامع مانع کتاب
وفات:
حضرت مجدد الملۃ قدس سرہ نے 83سال 3ماہ 11دن اپنے وجود مسعود سے دنیا کو متبرک ومنور فرمانے کے بعد 16رجب المرجب 1362ھ بمطابق 20جولائی 1943ح کی درمیانی شب رحلت فرمائی،انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ کی نماز جنازہ شیخ الاسلام حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے پڑھائی،تھانہ بھون کے قبرستان میں آپ آرام فرما ہیں۔
Download From Here

Introduction About Al-Rizwan Foundation Pakistan

Appeal:

Support Al Rizwan Foundation With Your Donations. Atiyat. Sadqat. Zakat

Provide all Basic Facility to Our Helpless People.

1. Provide Basic Education.
2. Propegation (Nashar-o-Ashiat) Quran Pak. Qurani Qaide Etc. Islamic Books
3. Halal Food.
4. Health Care
5. Provide Clean Water to Needy People {Handpump} Boring
6. Giving Money to Poor People
7. Orphan Marriage Jehaz {Girls}